سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان کی زیر قیادت مملکت میں جو نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے وہ دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہی نہیں بلکہ دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلی کے 180

چین، سعودی تعلقات، کیا عالمی منظرنامہ تبدیل یونے جا رہا ہے؟

سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان کی زیر قیادت مملکت میں جو نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے وہ دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہی نہیں بلکہ دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلی کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسے وقت حاضر کی ضرورت کہا جاسکتا ہے.
سابقہ روایات کو پس پشت ڈال کر دور جدید کے تقاضوں کے مطابق سعودی معاشرے کو نئے انداز میں ڈھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ جسے ہر سطح پر پذیرائی مل ریی ہے.

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان مسلسل نئی منزلوں کی طرف گامزن ہیں۔ وہ سعودی عرب کے سماجی ڈھانچے میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی سطح پر بھی اپنے تعلقات کی نئی سمتوں کا تعین کر رہے ہیں ۔

سال 2004 میں واشنگٹن پوسٹ کے صحافی ڈیوڈ اٹاوے کو انٹرویو دیتے ہوئے اس وقت کے سابقہ وزیر خارجہ نے بڑی دلچسپ مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ `سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی نوعیت کیھتولک شادی والی نہیں ہے کہ جہاں ایک سے زائد شادیوں کی اجازت نہیں ہوتی ۔ ہم مسلمانوں کو 4 شادیوں کی اجازت ہے ۔ ہمارے بارے میں یہ سوچنا غلط ہے کہ اگر دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات استوار ہوں گے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم امریکہ سے طلاق لے رہے ہیں، ۔

اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک آزاد اور خودمختار ریاست جتنے ممالک سے چاہیے روابط قائم کر سکتی ہے اور سعودی عرب بھی اسی فارمولے پر عمل پیرا ہے۔

دوسری جانب عالمی رحجانات کو پس پشت ڈالتے ہوئے چینی صدر شی جن پنگ نے ایک ایسے وقت میں سعودی عرب کا دورہ کیا جب امریکہ کے ساتھ مملکت کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر آچکے ہیں۔ توانائی کی عالمی منڈیوں میں بے یقینی کی فضا ہے کیوں کہ مغربی ممالک روس کی تیل کی قیمتوں کی حد متعین کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر بھی سخت تشویش ہے۔واضح رہے کہ چین کے صدر نے حال ہی میں سعودی عرب کا تین روزہ مکمل کیا ہے.

مبصرین نے ریاض کی جانب سے اس دورے کو مغربی اتحادیوں کی خواہشات کے برخلاف اپنے مفادات کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا اشارہ قرار دیا ہے۔
جبکہ اس سے قبل چین کے صدر شی جن پنگ نے جنوری 2016 میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جس کے بعد 2017 میں شاہ سلمان نے دورہ چین اور 2019 میں ولی عہد نے چین کا دورہ کیا تھا۔سعودی عرب اور چین نے ان دوروں کے بعد سامنے آنے والے ثمرات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان سے مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ ملا۔
مشترکہ اعلامیے میں دونوں ممالک کے درمیان تیل کی تجارت کے حجم، سعودی عرب میں تیل کے وسیع ذخائر اور چین کی وسیع منڈیوں تک اس کی رسائی کے لیے باہمی مضبوط تعاون کو بھی سراہا گیا ہے۔دونوں ممالک نے ہائیڈروکاربن کے لیے جدید وسائل کے استعمال، جوہری توانائی کے پرامن استعمال اور مصنوعی ذہانت جیسی جدید ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے تعاون پر بھی اتفاق کیا۔

اس دورے کا اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ چین کے صدر سعودی عرب کا دورہ ان حالات میں کررہے ہیں جب تیل کی پیداوار کم کرنے پر امریکہ اور مغربی ممالک تیل پیداوار کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ سعودی عرب اس تنظیم کی فیصلہ سازی میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔سعودی عرب اور چین نے اپنے تعلقات کو ترجیحی بنیادوں پر آگے بڑھانے اور ترقی پذیر ممالک کے لیے تعاون اور یکجہتی کا ماڈل قائم کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔اس ملاقات کے
مشترکہ اعلامیے کے مطابق ’دونوں ممالک نے اس بات کا بھی عزم کیا کہ وہ ایک دوسرے کے بنیادی مفادات، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی بھرپور حمایت جاری رکھیں گے۔مزید برآں چین نے سعودی عرب کی سلامتی اور استحکام میں ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مملکت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کی جائے گی۔چینی حکام نے سعودی عرب میں عام شہریوں، نجی املاک کو نشانہ بنانے اور مملکت کے مفادات کے خلاف کسی بھی قسم کے اقدام کو سختی سے رد کیا۔سعودی عرب اور چین دونوں نے تین دہائیوں سے جاری باہمی تعاون کے فروغ پر اطمینان کا اظہار کیا۔اسی طرح دونوں ممالک نے تمام شعبوں میں مشترکہ اقدامات جاری رکھنے، جامع سٹریٹجک شراکت داری کے فریم ورک کے اندر تعلقات کو مزید مضبوط کرنے اور انہیں نئی بلندیوں تک لے جانے کی اہمیت پر زور دیا۔

اعدادوشمار کے مطابق چین ، سعودی عرب کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ 2021 تک دونوں ممالک کا مشترکہ تجارتی حجم 87 ارب ڈالر سے زیادہ ہوچکا تھا۔ سعودی عرب کے لیے چین کی برآمدات کا سالانہ حجم 30 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ جب کہ چین سعودی عرب سے سالانہ 57 ارب ڈالر کی درآمدات کرتا ہے۔سعودی عرب چین کو تیل کا سب سے بڑا سپلائر ہے۔ چین اپنی تیل کی کل ضروریات کا 18 فی صد سعودی عرب سے حاصل کرتا ہے۔ 2022 کے 10 ماہ کے اعدادوشمار کے مطابق چین نے سعودی عرب سے ساڑھے 55 ارب ڈالر کا تیل خریدا۔ گزشتہ برس چین نے سعودی عرب سے 45 ارب ڈالر سے زائد کا تیل خریدا تھا۔اس کے علاووہ سعودی عرب کی سرکاری کمپنی آرامکو نے چین کی چھ نجی ریفائنریز کے ساتھ تیل کی فراہمی کے معاہدے کیے ہیں۔رواں برس آرامکو نے شمال مشرقی چین میں 10 ارب ڈالر کی مالیت سے آئل ریفائنری تعمیر کرنے کے لیے سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا تھا۔ تکمیل کی صورت میں یہ چین میں آرامکو کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہوگی۔دوسری جانب دونوں ممالک نے ایران، شام ، لبنان، فلسطین اور یوکرائن کے معاملے پر کی جانے والی کوششوں کو مستقبل میں بھی جاری رکھنے کا عندیہ دیا ۔ دنیا بدل رہی ہے سپر پاور کا نظریہ بھی اب ماضی کی کہانیاں ہیں ، علاقائی سیاست اور مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ریاست آزاد ہے اور یہ اس کا بنیادی حق ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ چین و سعودی عرب کے تعلقات سے یقیناً سیاست اور طاقت کے عالمی رحجانات پر دیرپا اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے جو دنیا میں طاقت کو متوازن کرنے کے لئیے بھی بے حد اہم ثابت ہوں گے جس کا توازن 90 کی دہائی میں بگڑ گیا تھا.
عبدالخالق لک جدہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں