سینئر صحافی ارشد شریف کے خلاف مقدمات اس عدالت کے دائرہ کار سے باہر ہیں ، اسلام آباد ہائیکورٹ 222

سینئر صحافی ارشد شریف کے خلاف مقدمات اس عدالت کے دائرہ کار سے باہر ہیں ، اسلام آباد ہائیکورٹ

سٹاف رپورٹ : ( تازہ اخبار، پی این پی نیوز ایچ ڈی)

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافی ارشد شریف کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی ، دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیے کہ صحافیوں کو تو 3 سال سے ٹارگٹ کیا جارہا ہے ۔ وکیل فیصل چودھری نے عدالت کو بتایا کہ سمیع ابراہیم اور عمران ریاض کیخلاف 10ایف آئی آر کاٹی گئی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس طرح کے پرچے تو ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں، ادارے قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کریں گے ،چیزیں خود ہی ٹھیک ہو جائیں گی، یہ عدالت صرف حفاظتی ضمانت منظور کرسکتی ہے.
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم فرض کرلیں کہ یہ مقدمات وزیر خارجہ کے حکم پر ہورہے ہیں؟۔ صحافی ارشد شریف نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کے حقوق کے تحفظ اور انصاف کے لیے آیا ہوں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کچھ دن مطیع اللہ جان نے بھی سیر کی تھی۔ وکیل فیصل چودھری نے کہا کہ مجھے بھی اٹھایا جا سکتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اٹھانا اتنا آسان نہیں، آپ کو اپنا وزن کم کرنا پڑے گا،آرڈر جاری کر دیتے ہیں کہ جب تک فیصل وزن کم نہ کرے تو اسے کوئی نہ اٹھائے.
وکیل فیصل چودھری نے کہا کہ ارشد شریف کے خلاف سندھ ہی نہیں، بلوچستان میں بھی پرچے درج ہو گئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جرنلسٹ باڈی کا کوئی نمائندہ عدالت موجود ہے ؟،کورٹ رپورٹرز کی تنظیم کے صدر یہاں موجود ہیں ان سے پوچھ لیتے ہیں ، عدالت نے ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر کو روسٹرم پر بلا لیا ۔ ثاقب بشیر نے کہا کہ ارشد شریف کو سنجیدہ نوعیت کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ارشد شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ارشد شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے مطیع اللہ جان کے پروگرام میں کوئی بات کی جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس بیچارے کو پھر کیوں بی میں لاتے ہیں ،یہ پہلے بھی سیر کر کے آئے ہیں.
وکیل درخواست گزار نے عدالت کوبتایا کہ اس وقت تک آٹھ مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نےاستفسار کیا کہ ملک بھر میں کتنے ڈسٹرکٹس ہیں؟ ، ہم 106 ہفتے کی حفاظتی ضمانت دے دیں کہ ہر ضلع میں جائیں،اس عدالت کا دائرہ اختیار نہیں کہ کسی اور ضلع میں درج مقدمہ پر کوئی فیصلہ کرے.
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایسا کوئی قانون نہیں کہ مقدمہ یہاں ٹرانسفر کیا جا سکے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ صحافی جذباتی نہیں ہو سکتا، اسے ذمہ داری اور احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے،دائرہ اختیار کو مد نظر رکھ کر تجویز کریں کہ عدالت کیا کرسکتی ہے.
عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ مقدمات اس عدالت کے دائرہ کار سے باہر ہیں،عدالت ان مقدمات کا میرٹ پر جائزہ نہیں لے سکتی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں