کیا پاکستان میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے ؟ 493

کیا پاکستان میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے ؟

شور نہیں شعور

ڈاکٹر زین اللہ خٹک
گزشتہ 75 سالوں سے مملکت پاکستان کو بے تحاشا مسائل کا سامنا ہے ۔ ان 75 سالوں میں مختلف قسم کے سیاسی پنڈتوں کے چورن کو آزمایا گیا ۔ ہر ایک پہلے والے حکمران پر الزامات لگاکر تبدیلی کا سوہنا خواب دیکھا کر اقتدار کے ایوانوں تک تو پہنچ جاتا ہے ۔ لیکن عملاً کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔ بلکہ حالات پہلے سے بھی بدتر ہوجاتے ہیں ۔ افسوس کہ پاکستان کو دو مسائل وراثت میں ملے ۔ تقسیم ہند کے وقت پاکستان کو معاشی اور سیکورٹی کے مسائل وارث میں دلوائیں گے ۔ 75 سالوں میں ملک کے ان دو حقیقی مسلوں کے اوپر کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوسکی ۔ بلکہ حالات گزرتے وقت کے ساتھ مزید گھمبیر ہوتے جارہے ہیں ۔ 1947 میں ڈالر کی قیمت 3 روپے 31 پیسے تھی۔
75 سالوں میں پاکستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے 4100 فیصد کم ہوئی۔جبکہ پڑوسی ملک بھارت کا روپیہ صرف 898.59 فیصد تک نیچے آیا . تقسیم ہند کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے 1947 میں ایک فکسڈ ایکسچینج ریٹ کا نظام اپنایا۔ لیکن افسوس قائد اعظم محمد علی جناح کو راستے سے ہٹایا گیا ۔ آپ ملک میں جمہوریت چاہتے تھے ۔ آپ پاکستان کے واحد حکمران رہے جس نے ملک میں سول اداروں کی بالادستی کے لیے اقدامات اٹھائے تھے ۔ آپ نے فوجی افسران کو مخاطب کرکے سرزنش کی تھی اور خبردار کیا تھا کہ پالیساں بنانا سول اداروں کاکام ہے ۔ لیکن جلد ہی اس باب کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا گیا ۔ جس کے بعد آج تک ملک میں کبھی سول اداروں کی بالادستی قائم نہیں ہوئی ۔ ان 75 سالوں میں ہم نے دیکھا کہ جمہوریت کے نام پر نام نہاد جمہوری لوگوں نے خوب مذاق کیا ۔ سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی رہے ۔ سیاسی جماعتوں نے ملڑی کو سیاست کے اندر گھسیٹا ۔ سیاسی ونگ قائم کی گئی ۔ واپڈا جیسے ادارے کو آرمی کے حوالے کردیا گیا ۔سول اداروں کی خوب تزلیل کی گئی ۔ لیکن 75 سالوں میں کسی نے بھی ملک کے حقیقی مسائل کا حل تلاش نہیں کیا ۔ کیوں کہ فیصلہ سازی کا اختیار ان کے پاس نہیں تھا۔ لیکن انہوں نے عوام کو نہیں بتایا۔ ملک اس وقت نہایت مشکل ترین اور بدترین دور سے گزر رہا ہے ۔ ملک میں مسائل کا حل صرف جمہوریت کے زریعے سے ہی ممکن ہے ۔ جمہوریت صرف ایک نظام کا نام نہیں بلکہ ایک لائحہ عمل کا نام ہے ۔ ملک میں گزشتہ چند برسوں سے تواتر سے ویلفیئر سوسائٹی کے بجائے ایک ملڑی طرزِ معاشرے کی تشکیل کے لئے اقدامات ہورہےہیں ۔ جس کی وجہ سے ملک میں تشدد بڑھ رہا ہے ۔ پہلی فرصت میں حقیقی جمہوریت کی بحالی ضروری ہے ۔ پالیسی سازی سو فیصد سول اداروں کاکام ہے ۔ افسوس ہماری سیاسی جماعتیں بھی جمہوری نہیں ۔جمہوریت وہ طرزِ عمل ہیں جس سے پاکستان کے مسائل کے حل میں پیش رفت ممکن ہے ۔ کیوں کہ جمہوریت کے زریعے تمام افراد ملکر مسائل کے حل کے لیے تجاویز پیش کرتے ہیں ۔ ممکنہ حل کے لیے سب ملکر کام کرتے ہیں ۔ اکثریت کبھی کسی غلط فیصلے پر متفق نہیں ہوسکتی ہے ۔ جمہوریت میں فیصلے کا اختیار جمہور کو حاصل ہے ۔ یہاں عوام اور عوام کے منتخب نمائندوں کے بجائے بند کمروں میں فیصلوں ہوتے ہیں۔ جو کہ جمہوریت کے لیے زہر قاتل ہے۔ جمہوریت میں تمام مسائل کا حل موجود ہیں۔ ملکی معیشت کو ایک خاص سازش کے تحت تباہ کردیا گیا۔ کیا 64 فیصد نوجوانوں کو ٹیکنیکل تعلیم دے کر ہم غربت کا خاتمہ نہیں کرسکتے ہیں ؟ کیا ہم چائنہ ماڈل پر عمل پیرا ہوکر ملک سے غربت کا خاتمہ نہیں کرسکتے ہیں ؟ کیا ہم اپنی معاشی نظام کو ترقی نہیں دے سکتے ہیں ؟ یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے ۔ جب عام لوگوں کو فیصلہ سازی میں شرکت کرنے کا موقع ملے ۔ یہاں تو absolutism ہے ۔ جیسے چھ سال سے باجوہ ڈاکٹرائن کس قانون کے تحت عملاً نافذ رہا ؟ کیا یہ ملک میں جمہوریت کے ساتھ مذاق نہیں ؟ کیا یہ پاکستانی قوم کے ساتھ مذاق نہیں ؟ کیا پاکستانیوں کو فیصلے کا اختیار نہیں ؟ ملک میں جمہوریت کی بحالی اور سول اداروں کی بالادستی سے ہی حقیقی معنوں میں ترقی ممکن ہوسکتی ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں