سی پیک دُنیا کا سب سے بڑا اقتصای و ترقیاتی منصوبہ 256

سی پیک دُنیا کا سب سے بڑا اقتصای و ترقیاتی منصوبہ

تحریر: فاطمہ بلوچ
چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) دُنیا میں جاری اس وقت سب سے بڑا اقتصادی و ترقیاتی منصوبہ ہے جسکی ابتدائی مالیت چھیالیس ارب ڈالر ہے جو مزید بڑھ کر باسٹھ ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ اس منصوبے میں طویل کشادہ اور محفوظ سڑکیں، توانائی کے منصوبے، انڈسٹریل پارکس اور گوادر بندرگاہ کی تعمیر و انصرام شامل ہے جسکی تکمیل، دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متاثرہ پاکستان کے لیے اقتصادی لحاظ سے ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔
سی پیک وہ منصوبہ ہے جس کو جتنی بھی گہرائی میں جس بھی طریقے سے اور جیسے مرضی پڑھ لیںآپکو یہ منصوبہ پاکستان کے مفاد میں نظرآئے گا۔ بلوچستان کے علاقے گوادر سے شروع ہونے والا یہ منصوبہ چین کے مغربی علاقوں تک وسیع ہے۔ گوادر جو کہ گہرے پانیوں میں دنیا کی بہترین بندرگاہ ہے ۔ سیاسی وعسکری قیادت کا کریڈٹ ہے کہ انہوں نے وقت اور حالات کو درست طور پر سمجھتے ہوئے اس پورٹ کا انتظام چین کو دیا ہے جسکی اسکوسب سے زیادہ ضرور ت تھی۔ اس منصوبے میں چین اور پاکستان تو براہ راست اسٹیک ہولڈرز ہیں جبکہ دنیا کے دیگر ممالک اس منصوبے میں شمولیت کے متمنی ہیں۔
اقتصادی منصوبوں کے لیے چھیالیس ارب ڈالر کی رقم میں سے تینتیس ارب ڈالر کی چینی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کی ہے جبکہ بارہ ار ب ڈالر کا سستا ترین قرضہ بھی دیا جائے گا جو پندرہ سے بیس سال کی مدت میں آسان ترین شرائط پر واپس کیا جاسکے گا۔ یہ راہداری منصوبہ(سی پیک) پندرہ سال کے لیے ہے۔ پاکستان، ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس اقتصادی راہداری منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیائی ممالک کے تین ارب عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ گوادر پورٹ مکمل ہونے پر دوہزار تیس تک پاکستان کو تقریباًنو سے دس ارب ڈالر کا سالانہ ریونیو حاصل ہو گا اور پچیس لاکھ کے قریب پاکستانیوںکو روزگار کے مواقع حاصل ہونگے۔لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوگا، صنعتی ترقی کاپہیہ چلے گا اور عوام خوشحال ہونگے
ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا کو یہ منصوبہ کسی بھی صورت قبول نہیں وہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے شب و روز ایک کیے ہوئے ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ بلوچستان میں امن و امان کی صورت الحال کو خراب کرنے کے لیے دہشت گروں کی مالی سپورٹ کر رہا ہے جسکا واضح ثبوت کلبوشن یادو ہے جسے ہمارے خفیہ و عسکری اداروں نے بلوچستان سے گرفتار کیا تھا۔
دو ہزار تیرہ میں چین نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا جسے سی پیک (چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور) کا نام دیا گیا۔ یہ پروگرام ایسا ہی تھا جیسے دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے تباہ حال یورپ کو دوبارہ معاشی ترقی کی راہ پر ڈالنے کی غرض سے مارشل پلان شروع کیا تھا ۔ امریکہ نے وسیع پیمانے پر یورپی ممالک کو مالی امداد اور قرضے دیے تھے۔سنہ دو ہزار پندرہ میں چین اور پاکستان نے سی پیک پر باقاعدہ کام شروع کردیا۔ چینی سرمایہ پاکستان آنے لگے۔یہ ایسا وقت تھا جب دہشت گردی کے باعث دنیا بھر کے سرمایہ کاروں نے پاکستان سے منہ موڑ رکھا تھا۔ چین نے اس پُر خطر ماحول میں پاکستان کا ہاتھ پکڑا۔ اس پروگرام کے تحت اب تک چین پاکستان میں پچیس ارب ڈالر کے منصوبے لگا چکا ہے ۔ اگلے چار پانچ برسوں میں تیس پینتیس ارب ڈالرکے مزید منصوبے مکمل کرلیے جائیں گے۔ اس وقت کئی پراجیکٹ زیر تکمیل ہیں یا اُن پر جلد کام شروع ہونے والا ہے۔ سی پیک کے تحت جو منصوبے لگائے جارہے ہیں انکی لاگت کا تقریباً تیس فیصد حصہ سستے چینی قرضوں پر مشتمل ہے جبکہ باقی چینی بینکوں اور کمپنیوں کی سرمایہ کاری ہے۔چین مخالف لابی نے بہت منفی پروپیگنڈہ کیا کہ سی پیک سے پاکستان قرضوں میں جکڑ کر چین کی کالونی بن جائے گا لیکن وقت نے اسے بے بنیاد اور جھوٹا ثابت کیا۔اسکے برعکس چینی سرمایہ کاری نے بہت مشکل وقت میں پاکستانی معیشت کو سہارا دیا۔ اس وقت بھی ہم سی پیک کے مثبت اثرات دیکھ سکتے ہیں۔
۔ یہ ایک طرح کی ڈیجیٹل شاہراہ ریشم ہے۔ اسکے مکمل ہونے سے پاکستان کاانٹرنیٹ کے لیے مغربی ممالک پر انحصار کم ہوگیا ہے۔ اب اس آپٹیکل فائبر کو ملک کے دیگر علاقوں تک توسیع دی جائے گی۔ ریلوے لائن اور موٹر ویز کے ساتھ ساتھ آپٹیکل فائبر بچھانے کے لیے منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔فیصل آباد اورنوشہرہ میں صنعتی زون پر کام شروع ہوچکا ہے جہاں انڈسٹری لگنے سے ملک میں صنعتی ترقی کا نیا دور شروع ہوگا۔ پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ اس کی پیداواری صلاحیت بہت کم ہے۔ زرعی اور صنعتی پیداوار اور برآمدات بہت کم ہیں۔ ہماری معاشی ترقی کا انحصار قرضوں اورسرکاری اخراجات پرہے۔ حکومت قرضے لیکر کھلے ہاتھ سے پیسے خرچ کرے تو ترقی کی شرح بڑھ جاتی ہے لیکن یہ عارضی اور ناپائیدار ترقی ہوتی ہے۔ یہ جعلی ترقی بار بار زرمبادلہ کا بحران پیدا کرتی ہے جس کے باعث آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔قرض ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ سی پیک پروگرام سے ہمیں موقع ملا ہے کہ ہم اس منحوس چکر سے نجات پائیں۔ صنعتی ترقی کی ٹھوس بنیاد رکھیں۔اگر پاکستان کے لوگ سیاست اور میڈیا کے فسادیوں کے پیچھے نہ لگے‘ ملک افراتفری کا شکار نہ ہوا تو اس سرمایہ کاری کے نتیجہ میں چار پانچ برس بعد ملک کے حالات خاصے بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں