سانس
ہر طرف خواب ہی خواب تھے
سنہری ، ست رنگی
روپہلی تتلیوں کی صورت
اسکے گالوں پر
خوابوں کے
سنہری بوسوں کا غازہ
دمک رہا تھا
شفاف آئینے کے فرش پر
خواب محو رقص تھے
موتیوں بھرے اک خواب نے
اسکی آنکھوں پر
اپنے لب رکھ دیے
طوفانی بارش
اور بپھرا سمندر
سیاہ بالوں کی بھیگی لٹیں
چہرے پہ قربان جا رہی تھیں
کیسا عجب ہے نا
کھارے اور میٹھے کا ملنا
اور لبوں پر
مسکان پھیل گئی
سیاہ گھنگھور
گرجتی گھٹاؤں میں جیسے
سورج چھب دکھلا دے
اسنے موتی بنانے کاگر پالیا تھا
کشتی میں
بے رحم سمندر
جھولیاں بھر بھر
پانی انڈیل رہا تھا
بادبان ٹوٹ گیا تھا
مگر وہ مسکرائے جا رہی تھی
اس نے موتی بنانے کا گر پا لیا تھا
سنہرے روپہلی خوابوں کی تتلیاں
دل کے آئینے پر
محو رقص تھیں
اور وہ مسکرائے جا رہی تھی
خوابوں کی تتلیوں کے پروں میں چھپ کر
وہ مسکرائے جا رہی تھی
کیونکہ اس نے موتی بنانے کا گر پالیا تھا
نمیرہ محسن
27 نومبر 2022
268