سرکاری گاڑی کی سیٹ سے ملنے والے خون آلود شواہد نے ڈی ایس پی عثمان حیدر کی اہلیہ اور بیٹی کے قتل کا معمہ بے نقاب کر دیا
اسٹاف رپورٹ: پی این نیوز ایچ ڈی
پنجاب پولیس نے حاضر سروس ڈی ایس پی محمد عثمان حیدر کی اہلیہ اور بیٹی کے اغوا کے دعوے کی تفتیش کرتے ہوئے دہرے قتل کا معمہ حل کر لیا۔ تفتیش کے دوران سامنے آنے والے ٹھوس شواہد، خصوصاً سرکاری گاڑی کی سیٹ میں موجود خون آلود فوم، نے کیس کا رخ یکسر بدل دیا اور بالآخر ملزم نے اعترافِ جرم کر لیا۔
رواں برس 18 اکتوبر کو ڈی ایس پی عثمان حیدر نے تھانہ برکی میں ایف آئی آر درج کرائی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ 27 ستمبر سے ان کی اہلیہ اور بیٹی لاپتا ہیں۔ پولیس نے روایتی اغوا کیسز کے مطابق ابتدائی تفتیش شروع کی، جس میں کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر) کا تجزیہ، قریبی رشتہ داروں سے پوچھ گچھ اور ممکنہ دشمنیوں کی جانچ شامل تھی، تاہم نہ تاوان کا مطالبہ سامنے آیا اور نہ ہی کوئی واضح سراغ ملا۔
ایس پی انویسٹیگیشن ماڈل ٹاؤن ایاز حسین کے مطابق سی ڈی آر کے تفصیلی جائزے میں ایک غیرمعمولی بات سامنے آئی کہ 25 ستمبر کی رات ساڑھے دس بجے سے ساڑھے تین بجے تک ڈی ایس پی عثمان حیدر کا موبائل فون بند رہا۔ ایک سینیئر پولیس افسر کا طویل وقت تک فون بند رہنا شکوک کو جنم دینے لگا۔
بعد ازاں پولیس نے عثمان حیدر کے گھر اور سرکاری گاڑی کا فرانزک کرایا۔ گھر کے بیسن، واش روم اور بیڈ سے خون کے معمولی آثار ملے، جبکہ سرکاری گاڑی کی سیٹوں کے کور اتارنے پر فوم کے اندر بڑی مقدار میں خون کے دھبے پائے گئے، جو خشک ہو چکے تھے۔ یہی شواہد تفتیش میں فیصلہ کن ثابت ہوئے۔
ڈی آئی جی انویسٹیگیشن سید ذیشان رضا کی ہدایت پر خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی گئی۔ شواہد ملزم کے سامنے رکھے گئے تو وہ خاموش ہو گیا اور کچھ دیر بعد پولیس کو شیخوپورہ لے جانے کی درخواست کی۔ ملزم کی نشاندہی پر معلوم ہوا کہ 5 اکتوبر کو فیروزوالہ کے علاقے سے ملنے والی ایک مسخ شدہ لاش دراصل اس کی اہلیہ کی تھی، جبکہ 27 ستمبر کو تھانہ کاہنہ کی حدود سے ملنے والی نامعلوم لاش اس کی بیٹی کی نکلی۔
پریس کانفرنس میں ڈی آئی جی انویسٹیگیشن نے بتایا کہ ملزم نے دو شادیاں کر رکھی تھیں۔ پلاٹ کی ملکیت کے تنازع پر 25 ستمبر کی رات رنگ روڈ پر جاتے ہوئے گاڑی میں تلخ کلامی ہوئی، جس پر ملزم نے سرکاری گاڑی میں بیٹھے ہوئے پستول سے اہلیہ کو دو اور بیٹی کو ایک فائر مار کر قتل کیا، پھر لاشیں مختلف مقامات پر ٹھکانے لگا دیں اور چند دن بعد اغوا کی ایف آئی آر درج کروا دی۔
پولیس کے مطابق ملزم کے خلاف دہرے قتل کا مقدمہ مضبوط شواہد کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جائے گا، جس کی سزا قانون کے مطابق دو بار سزائے موت ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ جرم پر کوئی رعایت نہیں، چاہے ملزم کسی بھی رینک کا افسر کیوں نہ ہو۔




