تحریر : عدنان تابش
(تازہ اخبار،پاک نیوز پوائنٹ )
کئی سال پہلے ماہر دفاعی امور اور سابق آئی ایس آئی سٹیشن چیف میجر ریٹائرڈ محمد عامر سے ایک صحافی نے پوچھا کہ افغانستان کے جنگ کا حل کیا ہے۔ تو اس نے مختصر سے الفاظ میں کہا کہ امریکہ کو گارنٹی چاہئے کہ افغان سرزمین آئندہ ان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ دوسری بات افغان حکومت اور طالبان آپس میں بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے اس بات کا حل نکالیں۔ کہ افغانستان کا مستقبل کا حکمران کون ہوگا۔ جنگ سے افغانستان کے مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلے گا بلکہ مذاکرات ہی اس کا آخری حل ہوگا۔ 20 سال کی لاینحل اور تھکادینے والی جنگ کے بعد آخر کار امریکہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ ہی گیا، فروری 2020 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے امریکہ نے یہ عہد لیا کہ افغانستان کی سرزمین امریکہ کے خلاف القاعدہ سمیت کسی بھی تنظیم کی طرف سے استعمال نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کئے جائے۔ اب گارنٹی اگر امریکہ نے طالبان سے لی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ مستقبل قریب یعنی اپنے انخلاء کے بعد طالبان ہی کو افغانستان کے حکمرانوں کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کی خواہش تھی اور افغان حکومت کی بھی خواہش ہے کہ امریکہ افغانستان کے ایک مکمل سیاسی تصفیے کے بغیر انخلاء نہ کرے۔ کیونکہ 90 کی دہائی میں سوویت یونین کے بخرے کرنے کے بعد امریکہ جس طرح پاکستان اور افغانستان کو پیٹھ دکھائی تھی، بالآخر وہی افغانستان امریکی مفادات کے لئے دردسر بن گیا تھا۔ تاہم امریکی اب اس دفع بھی اس قدر سرعت کے ساتھ انخلاء کر رہے ہیں کہ لگتا ہے کہ یہ انخلاء وقت مقررہ سے پہلے ہی مکمل ہوجائے گی۔ اسی سرعت کے باعث امریکہ نے افغان حکومت کو بھی اس بارے میں اعتماد میں نہیں لیا۔ افغان صدر اور اس کے وفد کا حالیہ دورہ امریکہ بھی اسی تذبذب کو دور کرنے کے لئے کیا گیا ہے، کہ افغان حکومت کے ساتھ انخلاء کے بعد امریکی تعلقات کس نوعیت کے رہیں گے، جہاں امریکی صدر نے اسے سیاسی، سفارتی اور فوجی امداد کی یقین دہانی کی ہے، ساتھ میں اس نے کھلے الفاظ میں یہ بھی کہا، کہ اب وقت آگیا ہے، کہ افغانستان کی سیکیورٹی ذمہ داریاں اب افغان خود ہی اٹھائے۔ تاہم امریکی فوجوں کے انخلاء کے ساتھ طالبان نے جس تیزی سے اپنی پیش قدمی کی ہے، اس سے بعض مغربی ماہرین یہ اندازہ لگا رہے ہیں، کہ وہ چھ ماہ کے اندر کابل پر قابض ہوسکتے ہیں۔ امریکی انخلاء، افغان فوج کی بعض علاقوں سے پسپائی، افغان وزیر داخلہ اور آرمی چیف سے صدر اشرف غنی کا مبینہ استعفیٰ لینا، وزیر دفاع کی ملک سے فرار کی خبریں ایسے فیکٹرز ہیں، جس سے طالبان کا مورال اپنی بلندی پر ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ افغانستان میں امن ایک دفعہ پھر داؤ پر لگ چکا ہے۔ بعض افغان پارلیمنٹیرینز کی طرف سے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ اور ہرزہ سرائی حقائق سے منہ چھپانے اور اپنی ناکامی کو دوسروں کے سر ڈالنے کے مترادف ہے، پاکستان اپنے موقف “پر امن اور مستحکم فغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے” کا اظہار کئی مرتبہ کرچکا ہے، اور اس سلسلے میں طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے اپنی بھرپور کوششیں دنیا کو دکھا چکا ہے۔ جس کی تعریف سابق ٹرمپ انتظامیہ بھی کرچکی ہیں۔ تاہم مغرب بھی اب یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہے، اور افغان حکومت کو بھی اسے تسلیم کرنا ہوگا، کہ امریکی انخلاء کے اعلان کے بعد پاکستان کا طالبان کے اوپر ماضی والا کنٹرول نہیں رہا ہے۔ طالبان اب افغانستان کے ایک خاصے حصّے پر اپنا مکمل کنٹرول رکھتے ہیں، اور قرائن سے واضح ہے، کہ ان کی اعلیٰ قیادت بھی افغانستان کے اندر ہی موجود ہیں۔ دوسرے طرف پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اپنا واضح موقف دیا ہے، کہ اگر کابل پر طالبان قابض ہوگئے، تو پاکستان اپنی سرحد مکمل طور پر بند کردے گا۔ جس میں واضح اشارہ دیا ہے، کہ پاکستان مزید مہاجرین کی آمد کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سابق افغان وار لارڈز کی طرف سے افغان فوج کی مسلسل پسپائی کے باعث عام عوام کو طالبان کے خلاف مسلح کرنے جیسے اقدامات افغانستان کو ایک بار پھر 90 کی دہائی والے خانہ جنگی کے حالات کی طرف لے جاسکتے ہیں، جہاں مجاہدین نے ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھول دئے تھے، اس خانہ جنگی کے باعث لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان کی طرف ہجرت کیا۔ اور اب تقریباً تیس سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان نے 3 ملین افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دی ہوئی ہے۔
مستقبل کے افغانستان کو مدنظر رکھتے ہوئے خطے کے سبھی ممالک اپنی سٹریٹجی ترتیب دے رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک کمانڈر کی طرف سے افغان ہزارہ شیعہ کو طالبان کے خلاف ملیشیا بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ ایران بھی حالات اور ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلے کرنے پر مجبور ہوا ہے، انڈیا کی افغانستان میں خاصی انوسٹمنٹ ہے، لیکن ابھی تک طالبان کے ساتھ بات چیت کے لئے ان کی طرف سے کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی۔ تاہم یہ واضح ہے کہ وہ کسی طرح افغانستان میں اپنی انوسٹمنٹ کو ضائع ہونے بچانے کی تگ ودو ضرور کرے گا اور وہ ہوا کا رخ مکمل دیکھنے کے بعد ہی ٹھوس فیصلے لے گا۔ پاکستان پہلے ہی امریکہ کو “نو مور” کہہ چکا ہے، امریکہ بھی اب جنگ کے بعدچین کے خلاف مضبوط معاشی بلاک بنا رہے ہیں، اور اس کے بیلٹ اینڈ روڈ پلان کے خلاف جی 7 ممالک کے ذریعے اپنی نئی سٹریٹجی B3W یعنی Build Back Better World کے نام سے بنا چکے ہیں۔ یعنی اب ان کی بھی کوشش ہوگی کہ براہ راست تصادم کی بجائے معاشی طور پر چین کا مقابلہ کیا جائے۔ افغانستان کے دوسرے طرف روس اور اس کے زیر اثر ممالک ہیں جہاں امریکہ کو اڈا بنانا ناممکن ہے۔ اس لحاظ سے نئ صف بندیاں جاری ہے۔ پاکستان پر ایک لحاظ سے کافی دباؤ بڑھ رہا ہے، کہ مغرب اور چین میں سے کسی ایک کا ساتھ دیا جائے۔ تاہم آج ہی وزیراعظم عمران خان نے چینی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو میں واضح پیغام دیا ہے، کہ وہ چین کو اپنا قریبی دوست ملک سمجھتا ہے اور اس مرتبہ پاکستان ایک ملک سے دوستی کے لئے دوسرے دوست کی قربانی دینے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف امریکہ کو بھی واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ مزید جنگ میں نہیں بلکہ امن میں اتحادی بن سکتے ہیں۔
