یہ کون لوگ ہیں؟؟؟؟ ؟
انسان کی فطرت اور جبلت میں حکمرانی، طاقت اور بڑا کہلوانے کا ایک فتور شامل ہے.
یہ فتنہ ہابیل اور قابیل سے شروع ہوا اور آج تلک جاری و ساری ہے.
جنگ عظیم دوئم کے بعد جب کیپٹل ازم نے پوری دنیا میں پنجے گاڑ لیے اور عین اسی وقت کیمونزم اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا.
اسی وقت کیپٹل ازم کے سرخیل امریکہ نے تمام ترقی پزیر ممالک کو تہہ تیغ کرنے اور اپنی حاکمیت کا ڈنکا بجانے کی ٹھان لی تھی.
مگر ویت نام میں ذلت اٹھانے کے افریقہ اور ایشیائی ممالک کے لیے نئی پالیسی مرتب کی گئی جسے امریکی وائٹ ہاؤس کی بجائے پینٹاگون کی گرفت میں دیا گیا.
اب یہ پالیسی کیا تھی؟؟؟؟
عموماً ترقی پذیر ممالک کی اکثریت وہ تھی جو جنگ عظیم دوئم کے بعد آزاد ہوئے تو وہاں کے باسیوں نے جمہوریت کو بطور نظام قبول کر لیا تھا مگر دوسری بات اس لیے اپنی مرضی کے پٹھو جو پیسے کے بے بہا استعمال اور طاقت کے بے دریغ استعمال سے جیت کر آگے آتے رہے مگر پھر ویت نام جنگ کے بعد دوسرا فیصلہ بھی ہوا کہ اب ان ممالک کی افواج کے ساتھ تعلقات استوار کیے جائیں گے کیونکہ بہت سے جمہوری لوگ جب ااس کیپیٹل ازم کی مدد سے طاقت میں تو آگئے مگر انکل سام کو بہت سی باتوں اور منصوبوں میں وہ مدد نا کی جیسے ان کی خواہش تھی تب سیاسی جماعتوں پر انویسٹمنٹ کی بجائے ان ممالک کی افواج پر خوب نوازشات کی گئیں جن میں ٹیلنٹ ایکسچینج پروگرام سرفہرست ہے.
ترقی پزیر ممالک سے جتھہ در جھتہ فوجی امریکہ جاتے اور وہاں ٹریننگ حاصل کرتے اور اس کا امریکہ کو فائدہ یہ ہوتا کہ مخصوص لوگ مخصوص لوگوں سے تعلقات استوار کرتے اور یوں یہ لوگ ناقابل بیان وظائف مشاہرے بھی پاتے اور ان واپس آنے والوں کی اکثریت ایک خاص اسکروٹنی کے بعد اعلی عہدے بھی پاتی.
اچھا یہ نوازشات صرف مسلمان ترقی پزیر ممالک تک محدود نا تھیں بلکہ افریقہ کے عیسائی ممالک بھی اسی قسم کی نوازشات سے مستفید ہو رہے تھے.
اب آگے چلتے ہیں.
اب موجودہ حالات کو سمجھنے کے لیے اس بیک گراؤنڈ کو سمجھنا بہت ضروری ہے.
پاکستان میں بطور نظام یہ جمہوریت اور اس کے گماشتے عملاً ناکام ہو چکے ہیں.
اسکندر مرزا مرحوم سے شروع ہونے والا سفر حضرت عمران خان تک جاری و ساری رہا.
اب لوگوں کی چیخیں اس مہنگائی بدامنی اقربا پروری عرش الہی تک پہنچ رہی ہیں. عین اسی لمحے جب اختیارات اور فنڈز کا نفوذ نچلی سطح تک ہونا چاہیے تھا بالکل اسی وقت معیشت سیاست انٹرنیشنل محاذ پہ ہم منہ کی کھا چکے ملک عملاً گروی رکھ چکے
اس وقت ضرورت یہ ہے کہ ایسا بلدیاتی نظام آئے جس سے عام آدمی تک فلاح پہنچ سکے وہ نالی سولنگ سڑک چپڑاسی کی نوکری کے لئے ایم این اے کے ڈیرے یا حجرے کی زینت نا بنے بلکہ یہ نوکری اور بنیادی حقوق اسے اس کی دہلیز پر ملیں.
مگر پھر ان امریکہ کے یاروں نے بالکل نیا پتہ پھینک دیا ہے صدارتی نظام جو موجودہ جمہوری نظام کی جگہ لے گا.
اور ان کی رسی سے بندھے لوگ ان کے پیچھے پیچھے ڈنگورے بجانے میں لگ گئے ہیں.
اے وطن عزیز کے لوگو آنکھیں کھولو اور آگے بڑھ کے اپنا حق لو.
صدارتی نظام میں اگر خیر ہوتی تو ی صدر جنرل ایوب خان صدر جنرل ضیاء الحق اور صدر جنرل پرویز مشرف کے ادوار
میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ چکی ہوتیں.
اس لیے ہمیں صدارتی نظام نہیں بلکہ بلدیاتی نظام چاہیے.