میرے کمرے کی اک کھڑکی
جنگل کی اور کو کھلتی ہے
بھورے بھیگے درختوں پر
سونے کی پریاں اترتی ہیں
اک پیارا سا رستہ بھی ہے
جو جنگل میں کھو جاتا ہے
اس راہ کو جاتا ہر راہی
دھیرے دھیرے دھندلاتا ہے
کچھ بارش کا سا موسم ہے
کچھ اسکی آنکھ بھی نم سی ہے
پیڑوں کے قدموں پر وارے
خزاں نے اپنے سب پیارے
بارش جنگل اور خزاں
میری کھڑکی سے لگ کر روتے ہیں
میں کیسے سو پاوں گی
جب پیارے میرے جگتے ہیں
بارش کے پانی سے اکثر
میری کھڑکی بھیگی رہتی ہے
میرے ہاتھ میں پکڑی اک پینسل
یہ دکھڑے لکھتی رہتی ہے
نمیرہ محسن
جولائی 2022
230