آج کے کالمزبین الاقوامیفیچر کالمزکالمز

2025 اکتوبر کی دمام میں پھیلی دھند کے نام ایک نامہ

سیدہ نمیرہ محسن شیرازی :پی این نیوز ایچ ڈی

آج ساحل پر
سمندر کے آنسووں نے
سفید چادریں
تان دی ہیں
ہر شجر
ہر پتھر
ہر پتی
ہر پھول
حتی کہ سمندر کنارے لوہے کی حسین جالی
اس کے آنسووں سے بھیگ رہے ہے
اور میں
ایک اجنبی
ساحل پر کھڑی
دھند کی دبیز آڑ کے پار
کچھ دیکھنا چاہ رہی ہوں
کچھ لوگ صبح کی سیر کرتے
دھند کے سینے میں اتر رہے ہیں
اور کچھ پرندے
اپنے گیلے پروں سے پریشان
چونچوں کو سینے پر ٹکائے
انتظار میں ہیں
سورج
ہاں کوئی روپہلی
سورج کی کرن
اس دھند کے سینے میں
خنجر کی مانند اتر کر
اس کو چیر دے گی
میری نظریں
سمندر کی کنارے سے لپٹی
مچلتی لہروں پر جمی ہیں
میرا دل
جانتا ہے
کہ
ادھر
دھند کے اس پار
اک خلقت کھڑی ہے
ہم سے بے نیاز
جیسے ہم ان سے بے خبر
مگر
یوں لگتا ہے
جو میں اس پار
ان کو دیکھتی ہوں
اس پار کوئی کھڑا مجھ کو دیکھتا ہے
جیسے یہاں کے باسی
مشغول ہیں
انجان ہیں
لمحہ موجود میں
مضبوطی سے قدم جمائے
کامران ہیں
وہاں بھی کچھ ایسا ہی عالم ہے
میرا کوئی اپنا
جو
اپنے سفر کو جا چکا ہے
میرے جیسا
دھند کی دیوار کے پرے
منتظر ہے
مجھ کو دیکھتا ہے
اور ہم ہمزاد جیسے
دونوں دنیاوں کو
محسوس کرنے والے
اس ان دیکھی سرحد پر
حیراں کھڑے ہیں
کس سے پوچھیں
جب جسم یہاں ہے
تو دل
کہاں ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے