شامی حکومت کا نئی کرنسی کے اجرا کا اعلان، قومی شناخت اور معاشی بحالی کی علامت
اسٹاف رپورٹ: پی این نیوز ایچ ڈی
شامی حکومت نے کئی برسوں سے جاری معاشی بحران، افراطِ زر اور کرنسی کی بے قدری کے تناظر میں ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے نئی شامی کرنسی کے اجرا کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔ حکومتی حلقوں کے مطابق یہ اقدام محض مالیاتی نظام میں تبدیلی نہیں بلکہ قومی شناخت کی بحالی، عوامی اعتماد کی مضبوطی اور معاشی استحکام کی جانب ایک علامتی پیش رفت ہے.
صدر احمد الشرع نے دارالحکومت دمشق میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نئی شامی کرنسی ملک کی اصل روح، اس کی تہذیبی اقدار اور عوامی محنت کی نمائندہ ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ شام نے مشکل ترین حالات کا سامنا کیا ہے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ قومی علامتوں کو نئی امید، استحکام اور خود انحصاری کے تصور سے جوڑا جائے.
صدر الشرع نے واضح کیا کہ نئی کرنسی کا اجرا محض پرانے نوٹوں کو تبدیل کرنے کا عمل نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی قومی سوچ کی عکاسی ہے جو شامی عوام کو مایوسی سے نکال کر خود اعتمادی، اتحاد اور مستقبل پر یقین کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں کرنسی پر شخصیات اور سیاسی علامتوں کی چھاپ رہی، تاہم اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ قومی کرنسی کو عوامی ثقافت، زمین اور محنت کی علامت بنایا جائے.
اس موقع پر شامی مرکزی بینک کے گورنر عبدالقادر الحصریہ بھی صدر کے ہمراہ موجود تھے۔ انہوں نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ نئی کرنسی کے ڈیزائن میں شام کی تاریخ، ثقافت اور معیشت کے بنیادی ستونوں کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ ان کے مطابق نئے نوٹوں پر کسی سیاسی یا تاریخی شخصیت کی تصاویر شامل نہیں ہوں گی، بلکہ گلاب، گندم، زیتون، مالٹے اور دیگر زرعی پیداوار کی عکاسی کی گئی ہے.
مرکزی بینک کے گورنر کا کہنا تھا کہ یہ زرعی علامات شام کی خود کفالت، دیہی معیشت، محنت کش طبقے اور صدیوں پر محیط تہذیبی ورثے کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ زرعی شعبہ شامی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی رہا ہے اور نئی کرنسی کے ذریعے اسی حقیقت کو اجاگر کیا جا رہا ہے.
مرکزی بینک کے مطابق نئی شامی کرنسی 10، 25، 50، 100، 200 اور 500 کی مالیت کے نوٹوں پر مشتمل ہوگی۔ نوٹوں کی تیاری میں جدید ترین سکیورٹی فیچرز شامل کیے گئے ہیں، جن میں خصوصی واٹر مارکس، جدید پرنٹنگ ٹیکنالوجی اور جعل سازی سے بچاؤ کے دیگر حفاظتی عناصر شامل ہیں، تاکہ کرنسی پر اعتماد بحال کیا جا سکے.
حکام کے مطابق نئی کرنسی کا اجرا مرحلہ وار کیا جائے گا تاکہ مالی نظام میں کسی قسم کا خلل پیدا نہ ہو۔ عوام کو پرانی کرنسی کے تبادلے، استعمال اور قانونی حیثیت سے متعلق واضح اور تفصیلی ہدایات جاری کی جائیں گی، جبکہ بینکوں اور مالیاتی اداروں کو بھی اس عمل کے لیے تیار کر لیا گیا ہے.
ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ نئی کرنسی کا اجرا ایک علامتی مگر اہم قدم ہے جو عوامی نفسیات پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے اور قومی یکجہتی کو فروغ دے سکتا ہے۔ تاہم ان کے مطابق حقیقی اور پائیدار معاشی استحکام کے لیے مالی نظم و ضبط، مقامی پیداوار میں اضافہ، برآمدات کے فروغ اور بین الاقوامی اعتماد کی بحالی ناگزیر ہوگی.
عوامی حلقوں میں اس اعلان کو ملا جلا ردِعمل ملا ہے۔ بعض شہریوں کا کہنا ہے کہ نئی کرنسی امید کی کرن ہے، جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ اصل امتحان اس کے بعد آنے والی معاشی پالیسیوں اور عملی اصلاحات کا ہوگا.
حکومتی ذرائع کے مطابق نئی شامی کرنسی کو قومی فخر، شناخت اور مستقبل پر اعتماد کی بحالی کی ایک سنجیدہ کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو اگر جامع معاشی اصلاحات کے ساتھ آگے بڑھی تو ملک کے لیے ایک نئے معاشی دور کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے.




