آج کے کالمزفیچر کالمزکالمز

امریکہ میں قانون، پاکستان میں فارم 47

امریکہ میں ایک مسلمان نیویارک کا میئر بن سکتا ہے، لیکن پاکستان میں ایک دیانتدار مسلمان کونسلر بھی نہیں بن سکتا

تحریر: پروفیسر محمد رزاق امن وٹو : پی این نیوز ایچ ڈی

زہران ممدانی کا نیویارک کے میئر کے طور پر منتخب ہونا صرف ایک سیاسی خبر نہیں، بلکہ یہ اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ امریکہ میں ابھی بھی قانون کی حکمرانی باقی ہے۔ یہ وہی امریکہ ہے جہاں نائن الیون کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک منظم لہر اٹھائی گئی، جہاں اسلاموفوبیا” نے معاشرتی دراڑوں کو مزید گہرا کیا۔ لیکن آج، اسی ملک کے سب سے بڑے شہر کا میئر ایک مسلمان بن جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہاں قانون، میرٹ، اور انصاف ابھی سانس لے رہے ہیں۔

یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں کہ نیویارک جیسے شہر میں، امریکہ کے صدر کی مخالفت کے باوجود ایک مسلمان امیدوار عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہو جائے۔ یہ جمہوریت کی اصل روح ہے — کہ ووٹ کی طاقت کسی عہدے، لابی، یا طاقتور شخص کی مرضی سے نہیں، بلکہ عوامی شعور سے متعین ہوتی ہے۔

اب ذرا آئینہ پاکستان کی طرف موڑیں۔ یہاں اگر کوئی پڑھا لکھا، ایماندار اور باصلاحیت نوجوان صرف کونسلر کا الیکشن لڑنا چاہے، تو بھی اس کے سامنے پورا تھانہ، تحصیل، اور ایم این اے–ایم پی اے کی دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ یہاں کسی کی اہلیت سے زیادہ اس کی ’’منظورِ نظر‘‘ حیثیت دیکھی جاتی ہے۔ اگر کوئی امیدوار کسی بااثر کی مرضی کے خلاف کھڑا ہو جائے، تو الیکشن نہیں، مقدمات جیتتا ہے۔

پاکستان میں الیکشن چوری بیلٹ بکس سے نہیں، نیتوں سے شروع ہوتی ہے۔ یہاں فارم 47 اب سیاسی اصطلاح نہیں بلکہ ایک قومی مذاق بن چکا ہے — جہاں ووٹ ڈالنے والے عوام شام کو فاتح ہوتے ہیں، اور صبح فارم بدل جاتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے، “جمہوریت جیت گئی!” لیکن درحقیقت، جمہوریت نہیں، چالاکی جیتتی ہے۔

یہی وہ تضاد ہے جس نے اس ملک کو مفلوج کر رکھا ہے۔ یہاں آئینی ترامیم بھی کرپشن کے تحفظ کے لیے ہوتی ہیں، اور اصلاحات کا مقصد بھی نظام کو مزید بگاڑنا بن چکا ہے۔ سچ بولنے والا، پڑھا لکھا، دیانتدار شہری اگر میدان میں اترے تو اسے ’’نظام سے نابلد‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ گویا اہلِ علم کی جگہ صرف اہلِ زر کے لیے رکھی گئی ہے۔

امریکہ میں ایک مسلمان نیویارک کا میئر بن سکتا ہے، لیکن پاکستان میں ایک دیانتدار مسلمان کونسلر بھی نہیں بن سکتا — کیونکہ یہاں نظام نہیں، نیٹ ورک چلتا ہے۔ وہاں آئین طاقتور ہے، یہاں طاقتور آئین ہے۔

یہ وہ ملک ہے جہاں عوام کو مسلسل محرومی، خوف، اور بے بسی میں رکھا گیا ہے تاکہ وہ سوال نہ کریں۔ سیاستدان انہیں راشن، آٹے، اور پیٹرول کی قطاروں میں مصروف رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ووٹ دیتے رہیں، مگر سوچ نہ سکیں۔ شعور سے زیادہ محتاجی کا کلچر پروان چڑھایا گیا ہے۔

ایسے میں کوئی کہے کہ “تبدیلی آئے گی”، تو ہنسی آتی ہے۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے خود نظام کے سب سے بڑے فائدہ اٹھانے والے بن چکے ہیں۔ یہاں نہ کوئی الیکشن خالص رہتا ہے، نہ نیت۔ ہر ووٹ کے پیچھے ایک منصوبہ، ہر نتیجے کے پیچھے ایک ’’فارم‘‘ ہوتا ہے۔

یہ ملک اس وقت بدل سکتا ہے جب اس کی قیادت بند لفافوں سے نکل کر کھلے ضمیر میں آ جائے۔ جب اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے کردار کی کرسی مضبوط کی جائے۔ جب فارم 47 نہیں، عوام کی آنکھوں کا اعتماد نتیجہ طے کرے۔

امریکہ نے ایک مسلمان کو میئر منتخب کیا، اور ہم آج تک ایک ایماندار کو امیدوار بننے نہیں دیتے۔ فرق صرف نظام کا نہیں، ضمیر کا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے