آج کے کالمزفیچر کالمزکالمز

اساتذہ کی عظمت اور ہمارا معاشرتی زوال

واقعی استاد کو بجا طور پر بچے کا روحانی والد کہا جاتا ہے۔ دنیا میں صرف دو رشتے ایسے ہیں جو یہ خواہش رکھتے ہیں کہ اُن کا فرزند اُن سے آگے بڑھے: ایک والدین اور دوسرا استاد

کالم نگار پروفیسر محمد رزاق امن وٹو:پی این نیوز ایچ ڈی

یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ والدین وہ وسیلہ ہیں جن کے ذریعے بچہ اس دنیا میں آتا ہے، مگر وہ ہستیاں جو اس بچے کو مٹی سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچاتی ہیں وہ استاد ہیں۔ اگر والدین حیاتیاتی سرپرست ہیں تو استاد روحانی سرپرست ہیں جو بچے کے ذہن اور روح کو جِلا بخشتے ہیں، اسے زندگی کے سفر میں رہنمائی دیتے ہیں۔
واقعی استاد کو بجا طور پر بچے کا روحانی والد کہا جاتا ہے۔ دنیا میں صرف دو رشتے ایسے ہیں جو یہ خواہش رکھتے ہیں کہ اُن کا فرزند اُن سے آگے بڑھے: ایک والدین اور دوسرا استاد۔

استاد ایک انجینئر کی مانند ہے، لیکن ایسا انجینئر نہیں جو محلات یا مشینیں تعمیر کرے، بلکہ ایسا معمار ہے جو کردار تعمیر کرتا ہے۔ وہ ایک سافٹ ویئر انجینئر کی طرح ہے، لیکن کوڈ درست کرنے کے بجائے وہ بچے کے ذہن کا ’’سافٹ ویئر‘‘ اپ ڈیٹ کرتا ہے—اُس میں اقدار ڈالتا ہے، اخلاق سنوارتا ہے اور دانش سکھاتا ہے۔ یہ استاد ہی ہے.
جو صحیح اور غلط میں تمیز سکھاتا ہے، جو زندگی کا راستہ دکھاتا ہے، جو بچے کو مشکلات جھیلنے، ظلم کے مقابل کھڑا ہونے، سچ کا ساتھ دینے اور جھوٹ کو رد کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ اگر کائنات کا خالق انسان کا خالق ہے توکردار کا خالق استاد ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ معاشروں نے ہمیشہ اساتذہ کو اعلیٰ ترین مقام دیا ہے۔ بعض ممالک میں جب استاد عدالت میں داخل ہوتا تو جج بھی احتراماً کھڑے ہو جاتے۔ کچھ قوموں میں استاد کے بارے میں تفتیش کرنے کا حق بھی صرف سربراہِ مملکت کو حاصل تھا۔ پرانے زمانوں میں بادشاہوں کے شہزادے اپنے استاد کے جوتے اُٹھانا باعثِ فخر سمجھتے تھے۔
شاگرد استاد کی سرزنش کو بھی رحمت جانتے تھے اور والدین اپنے بچوں کو ملنے والی استاد کی سختی پر ناز کرتے تھے۔ یہ تھی استاد کی عظمت۔
مگر آج، پاکستان میں وہی استاد بدترین ذلت کا شکار ہے۔ جو پیشہ کبھی سب سے زیادہ عزت کا حامل تھا، وہی آج کم ترین اجرت اور کم ترین وقعت کا پیشہ بن گیا ہے۔

نجی اسکولوں کے اساتذہ، جو اب اکثریت میں ہیں، محض پندرہ سولہ ہزار روپے ماہانہ پر گزارا کرتے ہیں، جو اکثر مزدور کی سرکاری کم از کم اُجرت سے بھی کم ہے۔ ذرا سوچیے! ایک ایسے ملک میں جہاں مہنگائی نے ہر گھر کونگل لیا ہے، وہ لوگ جو قوم کا مستقبل تراشتے ہیں، اُن کی کمائی ایک غیر ہنر مند مزدور سے بھی کم ہے۔ پھر بھی یہ اساتذہ قربانی دیتے ہیں، فاقہ سہتے ہیں، مگر نئی نسل کو علم اور اُمید دینے کا کام جاری رکھتے ہیں۔

اسی لیے جب مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کی زبوں حالی کی جڑ کیا ہے، تو میرا جواب ہوتا ہے: ’’اساتذہ اورعلما۔‘‘ اس لیے نہیں کہ وہ خود بدعنوان ہیں بلکہ اس لیے کہ معاشرے نے انہیں بدعنوان اور بے اثر بنا دیا ہے۔ بچہ اپنی زندگی کے اولین برس یا تو استاد کی زیرِ نگرانی گزارتا ہے یا مسجد کے خطیب کے زیرِ اثر۔ اگر اُن کی کردارسازی درست نہ ہو، اگر تربیت میں کمزوری ہو، تو یہی بچہ بڑا ہو کر پارلیمنٹ، بیوروکریسی یا اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتا ہے اور اپنی وہی کمزوری ساتھ لے کر آتا ہے۔ پھر وہ منصف نہیں بنتا بلکہ جابر، بدعنوان اور ظالم بن جاتا ہے۔ مسئلہ کی جڑ کردار سازی ہے اور ناکامی کی بنیاد یہی ہے کہ ہم نے اس ذمہ داری کے امین یعنی استاد کو کیا مقام دیا۔

مزید المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں استاد کو طبقات میں بانٹ دیا گیا ہے—کبھی اسکول ٹیچر، کبھی کالج لیکچرر، کبھی یونیورسٹی پروفیسر۔ اور ہر طبقے کے لیے تنخواہوں اور سہولتوں میں زمین آسمان کا فرق۔ یہ تقسیم بذاتِ خود ایک ناانصافی ہے۔ استاد استاد ہوتا ہے، چاہے وہ الف ب پڑھائے یا ایٹمی سائنس۔ حقیقت یہ ہے کہ استاد کو کبھی ملازم سمجھنا ہی نہیں چاہیے، وہ رہبر ہے، رہنما ہے، قائد ہے۔ مگر ہمارے نظام نے اُسے بیوروکریسی کی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے۔

المیہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں استاد کو پڑھانے کا اصل کام بھی کم ہی کرنے دیا جاتا ہے۔ اُنہیں کبھی الیکشن ڈیوٹی پر لگا دیا جاتا ہے، کبھی مردم شماری پر، کبھی ویکسین مہم پر، کبھی سیلاب زدگان کی خدمت پر۔ غرض ہرکام اُن سے لیا جاتا ہے سوائے اُس کے جس کے لیے وہ ہیں: تعلیم دینا اور نئی نسل کے کردار کو تراشنا۔

بین الاقوامی معیار دیکھیں تو ترقی یافتہ ممالک میں استاد کی تنخواہ اُس کی عظمت کے مطابق ہوتی ہے۔ وہاں استاد کی آمدنی اُسے فکروں سے آزاد کر دیتی ہے تاکہ وہ پورے انہماک کے ساتھ پڑھا سکے۔ پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ایک اوسط گھرانے کے ماہانہ اخراجات آج تین لاکھ روپے سے بھی تجاوز کر گئے ہیں، اور استاد پندرہ بیس ہزار پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنی توانائی تعلیمی خدمت کے بجائے پارٹ ٹائم ٹیوشنز اور دیگر ذرائع آمدن کی تلاش میں ضائع کرتا ہے۔

المیہ اور بڑھ جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسکولوں کو کس طرح تجارتی مراکز بنا دیا گیا ہے۔ تعلیمی ادارے جوکبھی علم کے مقدس مراکز تھے آج محض کاروبار ہیں۔ اکثر پرائیویٹ فاؤنڈیشنز اسکولوں کو کرایے پر دے دیتی ہیں اور ایسے بے روزگار افراد کو ذمہ داری سونپ دیتی ہیں جن کے پاس نہ تربیت ہے نہ جذبہ۔ پھر وہ نئی نسل کو کیا دے سکتے ہیں؟

یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہے۔ جہاں استاد کی توہین ہو، وہاں سے عزت رخصت ہو جاتی ہے۔ جہاں استاد کو کم تنخواہ دی جائے، وہاں سے برکت اُٹھ جاتی ہے۔ جہاں استاد کو خاموش کرایا جائے، وہاں سے سچائی غائب ہو جاتی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا تھا: ’’کاش میں خلیفہ کے بجائے استاد ہوتا۔‘‘ یہ ہے استاد کے پیشے کی عظمت۔ مگر ہم نے کیا کیا؟ ہم نے استاد کی عظمت، اختیار اور روزگار تینوں چھین لیے۔

اساتذہ کا دن محض خراجِ تحسین نہیں بلکہ یہ ضمیر کی پکار ہے۔ حکومت، پالیسی سازوں اور مفکرین کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ وقت سے پہلے جاگ جائیں۔ اساتذہ کی عظمت بحال کریں، اُن کا مقام یکساں کریں، اُنہیں وہ تنخواہیں دیں جو اُنہیں قوم کا معمار ہونے کے شایانِ شان ہوں،آزاد کریں، اور اُنہیں وہ کرنے دیں
جس کے لیے وہ ہیں: پڑھانا، رہنمائی کرنا اور نئی نسل کے کردار کو تراشنا۔

اگر وکیل اور ڈاکٹر کے لائسنس ہو سکتے ہیں تو استاد کا کیوں نہیں؟ اگر انجینئر اور جج کو عزت مل سکتی ہے تو اُن کو عزت کیوں نہ دی جائے جنہوں نے انہیں بنایا؟ یہ قوم سڑکوں اور پلوں سے نہیں بلکہ اساتذہ کی عزتِ رفتہ بحال کرنے سے ترقی کرے گی۔

اگر ہم نے اسکولوں کو کاروبار اور استاد کو کم اجرت والا کلرک سمجھنا بند نہ کیا تو یہ اجتماعی خودکشی ہوگی۔ ہمیں فوری طور پر تعلیمی نظام کو مقامی کونسلوں کے سپرد کرنا ہوگا، کمیونٹی کو بااختیار بنانا ہوگا، تدریس کو ایک باقاعدہ پیشہ تسلیم کر کے اساتذہ کو حقیقی رہنما کے طور پر تسلیم اور انعام دینا ہوگا۔

ورنہ نہ کوئی معاشی اصلاح کامیاب ہوگی، نہ سیاسی، نہ عسکری۔ جو معاشرہ اپنے استاد کی توہین کرے، وہ اپنی بنیادیں خود ڈھا دیتا ہے۔

آج، آئیے ہم سب مل کر یہ اعلان کریں:
سلام اُن اساتذہ کو۔ سلام اُن کی عظمت کو۔ سلام اُن کی ابدی بلندی کو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے