آج کے کالمزبین الاقوامیبین الاقوامی کالمزپاکستانفیچر کالمزکالمز

27 آئینی ترمیم، عوام گئی تیل لینے

کالم نگار پروفیسر محمد رزاق امن وٹو : پی این نیوز ایچ ڈی

پاکستان میں آئینی اصلاحات کی بحث نئی نہیں۔ ہر چند سال بعد ایک ترمیم، ایک کمیشن، ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے، بلند آوازوں میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اب ملک کی سمت بدل دی جائے گی، اب عوام کے مسائل حل ہوں گے، اب ترقی کی سڑک ہموار ہو گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پچاس برس گزر گئے، ملک کی سمت بدلی نہیں.

صرف چہرے بدلے، اکھاڑے بدلے، تخت بدلتے رہے مگر تماشائی — یعنی عوام — اپنی جگہ پر ہی موجود رہے۔ آئینِ پاکستان کی 27ویں یا 26ویں یا اٹھارہویں ترمیم کی بحث اپنی جگہ، مگر اس ملک کے لیے جس اصلاح کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، جس ترمیم نے پاکستان کو حقیقی ترقی کی بنیاد دینی تھی، اسے کبھی ایجنڈا بننے ہی نہ دیا گیا۔ وہ تھی اختیارات کی نیچے تک منتقلی، یعنی بلدیاتی خودمختاری کی حقیقی اور عملی شکل۔

پاکستان کی آبادی آج پچیس کروڑ کے قریب ہے۔ اتنی آبادی کے ملک کو وزارتوں کے جنگل، بیوروکریسی کے لشکر اور صوبائی و ضلعی سطح کے بوجھل ڈھانچوں کے ذریعے چلانا دراصل عقل، معاشیات اور سادہ فہم — تینوں کے خلاف ہے۔ یہ ملک اوپر سے نہیں چلایا جا سکتا، اسے نیچے سے چلانا ہوگا۔ وہ نیچے جہاں عوام رہتے ہیں، جہاں زندگی کے مسائل روزانہ پیدا ہوتے ہیں، جہاں پانی کا مسئلہ حل ہونا ہے، نکاسی کا مسئلہ حل ہونا ہے، لینڈ ریکارڈ، فراہمیِ صحت، تعلیم، صفائی، بنیادی سڑکیں، مقامی تنازعات، چھوٹے جرائم — یہ سب کچھ صرف اور صرف گراس روٹ سطح پر حل ہو سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں طاقت اور اختیار ہمیشہ اوپر رہنے کی خواہش رکھتے ہیں، اور یہی مزاج ہمارے موجودہ بحرانوں کا بنیادی سبب ہے۔

آئین کا Article 140A دراصل اسی سمت کی نشاندہی کرتا ہے — کہ صوبائی حکومتیں بااختیار بلدیاتی ادارے قائم کریں۔ لیکن اس آرٹیکل کی حیثیت آج تک ایک خوبصورت مگر خالی وعدے سے زیادہ نہیں ہو سکی۔ پاکستان میں بلدیاتی اداروں کو صرف انتخابات تک زندہ رکھا جاتا ہے، اختیارات کبھی نہیں دیے جاتے۔ یہ ڈھانچہ صرف عوامی نمائندگی کے نام پر ایک دکھاوا بن کر رہ گیا ہے، جسے صوبائی حکومتیں اپنی سیاسی ضرورت کے مطابق چلاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اختیارات بیوروکریسی اور کابینہ کی مٹھی میں قید رہتے ہیں، اور عوام کے مسائل دہائیوں سے وہیں کھڑے ہیں جہاں کھڑے تھے۔

پاکستان کی موجودہ ریاستی مشینری ایک مہنگا، سست اور بوجھل ڈھانچہ ہے جسے چلانے کے لیے روزانہ اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ صرف بیوروکریسی کے پروٹوکول، گاڑیاں، مراعات، رہائش گاہیں، سیکیورٹی اور تنخواہیں — ملک کے لیے ایک مستقل بوجھ بن چکی ہیں۔ آپ دیکھیں کہ عدالتی نظام میں ایک کیس نسلوں تک چلتا رہتا ہے۔ ایک شہری انصاف کے لیے مرتے دم تک انتظار کرتا ہے۔ پولیس کا نظام سیاست کے تابع ہے، جرائم کنٹرول سے باہر ہیں، اور کرپشن کھلے عام ایک نارمل چیز بن چکی ہے۔ صحت کا نظام ٹوٹا ہوا، تعلیم کا نظام ہچکولے کھاتا ہوا، صنعت دیرینہ بحرانوں میں گھری ہوئی، زراعت کمزور، بے روزگاری بلند — ان سب کی وجہ وسائل کی قلت نہیں، اختیارات کی غلط سمت ہے۔

پاکستان اگر واقعی ترقی کرنا چاہتا، تو اسے 18ویں یا 27ویں ترمیم سے زیادہ ایک انقلابی ترمیم کی ضرورت تھی — جس میں پورا ملک 500 سے 600 بااختیار یونین کونسلز میں تقسیم کیا جاتا۔ ہر یونین کونسل 4 سے 5 لاکھ افراد پر مشتمل ہوتی، اس کا سربراہ براہِ راست منتخب، غیر سیاسی مداخلت سے آزاد، بااختیار، مالی طور پر خودکفیل، اور انتظامی لحاظ سے مکمل خودمختار ہوتا۔ اس ماڈل میں ہر یونین کونسل اپنے اندر عدالت رکھتی، اپنے اندر مقامی پولیس رکھتی، اپنی ایجوکیشن اتھارٹی رکھتی، اپنا ہیلتھ سسٹم رکھتی، اپنی مقامی سرویلنس رکھتی، اپنا ریونیو خود جنریٹ کرتی، اور اپنے بنیادی مسائل خود حل کرتی۔ وفاق کے ساتھ اُس کا براہِ راست رابطہ ہوتا، بیچ کے غیر ضروری ڈھانچے — صوبے، اضلاع، ڈویژنز — صرف علامتی رہ جاتے۔

اگر یونین کونسل سطح پر عدالتیں ہوتیں تو چھوٹے مقدمات مہینوں میں حل ہو جاتے، سالوں میں نہیں۔ اگر پولیس کا نظام یونین کونسل کے تابع ہوتا تو سیاسی مداخلت ختم ہو جاتی اور جرائم میں واضح کمی ہوتی۔ اگر ہسپتال، اسکول، کالج، فاریسٹ، زراعت، ٹرانسپورٹ — سب یونین کونسل کی نگرانی میں چلتے، تو صرف کرپشن ہی نہیں بلکہ غیر پیداواری بیوروکریسی کا کردار کم ہو کر عوامی معاونت تک محدود ہو جاتا۔

وفاقی کابینہ کی تعداد پانچ سے زیادہ نہ ہوتی: وزیراعظم، سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری خارجہ، سیکرٹری دفاع، سیکرٹری خزانہ — باقی تمام وزارتیں یونین کونسل کی سطح پر منتقل ہو چکی ہوتیں۔ اس سے پروٹوکول کلچر ختم ہوتا، بیوروکریسی کی شاہانہ زندگی ختم ہوتی، اربوں روپے روزانہ کی بچت ہوتی، اور عوام کے لیے ایک تیز رفتار، شفاف، عملی نظام قائم ہوتا۔ ملک خود کفیل ہوتا، قرضوں سے نجات ملتی، صنعت میں ترقی آتی، نوجوانوں کے لیے روزگار پیدا ہوتا، اور ریاست اپنے پاؤں پر کھڑی ہوتی۔

لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں آج جو ترامیم ہو رہی ہیں، وہ عوام کے لیے نہیں، طاقت کے مراکز کے لیے ہیں۔ وہ کرپشن چھپانے کے لیے ہیں۔ وہ احتساب سے بچنے کے لیے ہیں۔ وہ اپنے خاندانوں کی حفاظت کے لیے ہیں۔ عوام اس پورے کھیل میں صرف تماشائی ہے، شریک نہیں۔

پاکستان کی حقیقی ترقی کا راستہ کسی بڑے وعدے یا جذباتی نعرے میں نہیں، بلکہ گراس روٹ سطح پر اختیارات کی منصفانہ تقسیم، خودمختاری اور شفافیت میں ہے۔ جب تک اختیارات اوپر سے نیچے نہیں آتے، اور جب تک یونین کونسل کو اس ملک کی سیاسی اور انتظامی بنیاد نہیں بنایا جاتا — نہ غربت ختم ہو سکتی ہے، نہ بے روزگاری، نہ کرپشن، نہ بدامنی، نہ بدانتظامی۔ آج پاکستان کو ضرورت ایک ایسی ترمیم کی ہے جو عوام کو طاقت دے، نہ کہ حکمرانوں کو تحفظ۔ جب عوام خود اپنے نظام کا مالک بنے گی، تب ہی یہ ملک صحیح معنی میں ترقی کرے گا اور تب ہی پاکستان ایک مضبوط، خودمختار اور باوقار ریاست کی شکل اختیار کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے