جماعت اسلامی ضلع مہمند کے بانی ڈاکٹر منصف خان بقضاۓ الہی وفات پاچکے ہیں 484

جماعت اسلامی ضلع مہمند کے بانی ڈاکٹر منصف خان جہاں فانی سے کوچ کرگئے.

جماعت اسلامی ضلع مہمند کے بانی ڈاکٹر منصف خان بقضاۓ الہی وفات پاچکے ہیں.آج شام 8 بجے ضلع مھمند اور ضلع پشاور کے بارڈر پر انکے اپنے آبائی گاوں کادو کور میں ادا کی جائیگی۔
مرحوم جماعت اسلامی کا اثاثہ تھے زندگی کے آخری لمحے تک تحریک اسلامی کے متحرک کارکن رہے،اللہ تعالی مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیں آمین.
ڈاکٹر منصف خان 80 کے دہائی میں بیرون ملک میں عظیم سکالر سید ابو الاعلٰی المودودی کا لٹریچر پڑھ کر تحریک اسلامی سے روشناس ہوا۔ بیرون ملک سے پاکستان آنے کے بعد ڈاکٹری کا پیشہ اختیار کیا لیکن بہت جلد تحریک اسلامی سے شوق اور محبت اتنا بڑھا کہ اپنا پیشہ چھوڑ کر اپنے آپ کو کل وقتی طور پر جماعت اسلامی کو وقف کیا۔ آپ نے ضلع مھمند کے۔گھر گھر کو تحریک اسلامی کا پیغام پہنچایا اور مھمند کے لوگوں کو جماعت اسلامی سے روشناس کروایا۔ بقول ماسٹر آرسلا خان ایک ایک آدمی کے پیچھے پتہ نہیں کتنی کتنی بار گھر جاتا تھا اور تحریک اسلامی کا پیغام پہنچاتا تھا، کبھی کبھی آدمی اُس سے تنگ بھی آجاتا کہ یہ بندہ بار بار کتابیں لے کر آتا ہے لیکن وہ تو اللہ اور تحریک اسلامی کے محبت میں مست تھا اور بار بار لوگوں کے دلوں پر دستک دیتے رہیں۔ڈاکٹر منصف خان ضلع مھمند میں قاضی حسین احمد کے ساتھ قربانیوں کا ایک داستان تھے۔ فاٹا میں جب انتظامیہ کی طرف سے سیاسی لوگوں پر پاپندی تھی تو اسی مرد مجاھد نے پاپندی کے باوجود مھمند میں قاضی صاحب کا جلسہ کروایا جہاں پر قاضی صاحب پر خودکش حملہ ہوا جس میں ڈاکٹر منصف خان بھی ہمراہ تھے۔ ڈاکٹر منصف دو بار ضلع مھمند کے امیر اور ایک دفعہ فاٹا کے نائب امیر رہے۔مھمند اور گردونواح میں ھزاروں ارکان وکارکنان ڈاکٹر صاحب ہی کے لگائے ہوئے پھول ہیں۔ آپ کی جدوجہد میں اقامت دین کے ساتھ ساتھ فاٹا میں میں جمہوریت کی دھوام اور FCR کی خاتمے کا تحریک سرفہرست ہیں۔ سیکنڑوں فہم قرآن کلاسزز، شب بیداریاں اور دوسرے تنظیمی پروگرامات منعقد کراتے رہیں۔ اپنی پوری سیاسی زندگی میں اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، اپنی اپنی حدود میں رہ کر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ھم آہنگی کا درس دیتے رہیں۔ قاضی حسین احمد سے لیکر منور حسن، سراج الحق، مشتاق احمد اور دوسرے قائدین کو ضلع مھمند کا ویزٹ کرواتے رہیں اور اپنے عوام کے مسائل پیش کرتے رہیں۔ آپریشن متاثرین کی بحالی اور ان کی مدد کے لیے الخدمت فاونڈیشن کے فلیٹ فام سے خدمت کرتے رہیں،سینکڑوں یتیم بچوں کی الخدمت سے مالی معاونت کرتے رہیں اور آغوش میں بھی داخل کروائیں۔وہ اپنے عوام کے مخلص اور غم خوار تھے۔ قوم کی ہر دکھ درد اور تکلیف میں شریک رہیں۔ اپنی ذاتی فائدے کے لیے نہیں بلکہ اجتماعی حقوق کے لیے جدوجہد کے قائل تھے۔زندگی کے آخری لمحے تک تحریک اسلامی کا سرمایہ اور فخر رہیں، سارا زندگی خالص رضا الٰہی اور فلاح اُخروی کے حصول کے لیے اقامت دین کی جدوجہد کرتے رہیں۔سیاست بھی عبادت اور اپنے رب سے نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کوئی انجانے میں بھی ڈاکٹر صاحب کی کردار پر انگلی نہیں اٹھا سکتے۔ اللہ جدوجہد کو قبول کرائیں اور ہمیں اُن کی راہ پر چلنے کی توفیق نصیب کریں۔ آمین
کچھ مہینے پہلے کینسر مرض کا شکار ہوئے اور آج بدھ کے دن 26 مئی کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ مھمند کا ہر بچہ، بوڑھا اور جوان اس پر گواہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اللہ کے دین کے سپاہی تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں