ایل این جی کی خریداری کا معاملہ اور
پاکستان کے سارے کرپٹ اور مفاد پرست سیاستدان ایک طرف اور عمران خان ایک طرف
تحریر: زبیر خان بلوچ
گزشتہ شب ایک ٹی وی پروگرام میں سینئر اینکر پرسن “کامران خان‘’ پروگرام میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے درمیان بڑا مناظرہ ہوا.
معاون خصوصی ندیم بابر سستی گیس خریدنے کے دعوے پر قائم رہے جبکہ لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی نے ان پر خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام لگایا. اس موقع پر پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کا کہنا تھا کہ میں یہ مانتا ہوں کہ ملک کو ایل این جی کی ضرورت ہے سابق حکومت نے پاور پلانٹس کو ڈیزل سے ایل این جی پر منتقل کر کے اچھا کام کیا۔ تاہم ن لیگ کے دور میں ایل این جی کو پیٹرول ڈکلیئر کرایا گیا.
ندیم بابر نے کہا کہ ایک ٹرمینل اگلے مہینے تعمیراتی کام شروع کر رہا ہے جبکہ دوسرا ٹرمینل بھی جلد تعمیراتی کام شروع کرنے والا ہے. ہم روز 527 ملین ڈالر ان ٹرمینلز کو دیتے ہیں. ان کا کہنا تھا کہ ساری مارکیٹ کہہ رہی تھی کہ قیمتیں کم ہونگی،اس لیے 10 سال کا معاہدہ نہیں کرنا چاہیے تھا. 10 سال بعد ہم معاہدہ چھوڑ نہیں سکتے، دوبارہ قیمتیں طے کر سکتے ہیں. ان کے اپنے دور میں ہی ثابت ہو گیا، وہ قیمتیں مناسب نہیں تھیں.
معاون خصوصی ندیم بابر نے جب یہ کہا سابقہ حکومت نے 226 ارب روپے جی آئی ڈی سی کی مد میں جمع ہوئے. جی آئی ڈی سی کے جو پیسے جمع ہوئے وہ کہاں ہیں؟ شاہد صاحب بتا دیں. دس مہینے تک ٹرمینل کی پوری پیمنٹ دیتے رہے لیکن گیس نہیں لائی گئی.یہ پاور پلانٹس 7 نہیں دو سے اڑھائی سال این جی پر چلے.
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی نے سابق وزیر خزانہ کو باہر بھیجنے میں مدد کی، ان سے درخواست ہے کہ وہ انھیں ملک میں لانے کیلئے معاونت کریں.
3 پلانٹس کو پی ایس او، ایس این جی پی ایل سے ایل این جی کی خریداری سے چھٹکارا مل گیا. ندیم بابر نے کہا کہ سب سے پہلی بات یہ کہ آپ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ پچھلی حکومت میں جب پاکستان میں ایل این جی متعارف کرائی گئی تو اسے پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت گیس کے بجائے پیٹرولیم پراڈکٹ قرار دے دیا گیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اوگرا گیس کی قیمت کا تعین کرتا ہے تو وہ ایل این جی کو اس میں شامل نہیں کر سکتا.
شاہد خاقان عباسی کا قطر کا معاہدہ 13.37 فیصد پرکیا گیا اور اس معاہدے کے دس مہنے بعد اس کو یہ 12 فیصد پر لے آئے جو کہ بہت اچھا کیا لیکن سوال یہ بھی ہے کے اسے پندرہ سال کے لئے معاہدہ کیوں کیا گیا ؟ اور مزید یہ 16 سے 17 فیصد پر بھی کیے گیے.
معاون خصوصی نے کہا کہ ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ اگر گرمیوں میں ایل این جی اتنی سستی تھی تو آپ نے ڈھیر ساری کیوں نہیں خرید لی تو اس کا آسان جواب ہے کہ جب گرمیوں میں قیمت برینٹ کا 10فیصد چل رہی تھی تو یا تو ہم سمجھتے ہیں کہ بیچنے والے احمق ہیں کہ ان کو یہ معلوم نہیں کہ سردیوں میں قیمت بڑھ جاتی ہے یا ہم اتنے ناسمجھ ہیں.
ان کا کہنا تھا کہ آپ پچھلے 10سال کا ڈیٹا اٹھا کر دیکھ لیں، ٹرینڈ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ سال کے کچھ مہینوں میں قیمت کم ہوتی ہے اور کچھ میں زیادہ ہوتی ہے، یہ ایک قدرتی امر ہے لہٰذا یہ تاثر درست نہیں ہے.
اس پر کوئی تسلی بخش جواب نا دے سکے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی .یہ ہے ان لوگوں کی کریڈ بلٹی یا ساکھ، یہ وہ لوگ ہیں جو ہم پر پیچھلے چالیس سال تک حکومت کرتے رہے. یہ وہی صاحب ہیں جب امریکہ نجی دورے پر گئے تو اپنی پینٹ امریکیوں میں چھوڑ آئے.
ہمارے صاحب شعور لوگوں کو یہ سوچنا چایے پاکستان کے لئے کیا یہ بہتر ہیں نہ کے ہم لوگ وہی پچھلے کرپٹ لوگوں کا ساتھ دیں جو چالیس سال سے کچھ بھی بہتر نہ کر سکے.
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت ایک سہی سمیت میں جا رہی ہے. ماضی کے برعکس پاکستان کی خارجہ پالیسی پر مکمل ہم آہنگی کیساتھ آگے بڑھ رہے ہیں. افغانستان ہو یا مسئلہ کشمیر، سعودی عرب ،امریکہ یا چین کیساتھ تعلقات ، کرتار پور راہداری, سول اور ملٹری قیادت ایک پیج پر نظرآتے ہیں. پاکستان کی ایکسپورٹ بڑھ رہی ہے. موجودہ مالی سال کے پہلے چار ماہ میں ملک کی ٹیکسٹائل کی برآمدات 4.5 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں ہیں.
اگر آپ پچھلی حکومت کے ساتھ عمران خان حکومت کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے امریکی دورے کو ہر نقطہ نظر سے دیکھ لیں عمران خان نے اپنے امریکی دورے پر صرف 67،180 ڈالر خرچ کئے جب کہ نواز شریف نے 549،854 ڈالر خرچ کیے، اور آصف زرداری نے 752،682 ڈالر خرچ کیے.یہ پیسا ہم غریب عوام کا تھا اور باقی سیاستدان اپنے خاندانوں کے ساتھ جاتے تھے اور خالی ہاتھ واپس آ جاتے اور ساتھ میں اپنی پتلون وہاں چھوڑ کر آتے تھے، عمران خان عزت و احترام کے ساتھ امریکہ گیے تھے.
انسانی ترقی، صحت ، تعلیم اور تربیت اور ماحول سے متعلق بہت سارے منصوبے بنائے گئے فہرست میں ہیں پناگاہ 200+ ، صحت سہولت کارڈ، ڈیجیٹل پاکستان پروگرام، کامیاب نوجوان پروگرام,، ہنر مند نوجوان پروگرام، ملک بھر میں کلین اینڈ گرین پاکستان کے تحت شجرکاری بلین ٹری درختوں کا ریکارڈ کیا گیا.
کچھ پروجیکٹس جن کا ذکر میں لازمی کرنا چاہوں گا؛ کروٹ ہائیڈل ڈیم 720 میگاواٹ، گوادر ہوائی اڈے کا تعمیراتی کام جاری، یکساں تعلیمی نصاب پروگرام، پاکستان ریلوے کے لئے ML-1، اسلام آباد تا ڈی آئی خان 293 کلومیٹر پروجیکٹ، مانسہرہ تا ٹھاک کوٹ (80 کلومیٹر) مکمل، فیصل آباد میں علامہ اقبال صنعتی پروگرام، دیامر ڈیم پر 4500 میگاواٹ کی تعمیر کا آغاز، کوہالہ ڈیم 1124 میگاواٹ پر تعمیر کا آغاز، مہمند ڈیم 800 میگاواٹ پر تعمیر کا آغاز، سوکی-کنری ڈیم 874 میگاواٹ پر تعمیر کا آغاز.
سب سے اہم بات تحریک انصاف ملکی تاریخ میں واحد حکومت ہے جس میں حکومت کے اپنے وزراء ء ایک دوسرے کی غلطیوں کی عوام کے سامنے نشاندہی کرنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے.
اور بھی بہت ہے لکھنے کو لیکن آخرمیں میرا سوال ان لوگوں سے جو ان چوروں کو سپورٹ کرتے ہیں یہ سب آپ لوگ بھی دیکھیں اور اپنے ضمیر سے پوچھیں کیا آج تک کوئی لیڈر عمران خان جیسا آیا ؟ کیا یہ پاکستان کے لئے اچھا لیڈر ہے ؟ ایک پاکستانی بن کر سوچیں اور جو پاکستان کے لئے بہتر ہو آپ وہی کریں جو کہ ہمارے بچوں کے مستقبل کے لئے بہتر ہو، امید کرتا ہوں کے یہ آپ اپنے ضمیر سے لازمی پوچھیں گے.